اناء کہ مر گئی ، خاموش کیوں نہیں ہوتی

شکستِ خواب فراموش کیوں نہیں ہوتی

اٹھائے پھرتی ہے وحشت شکست کا لاشہ

یہ کم نصیب سبک دوش کیوں نہیں ہوتی

اب اس سے قبل کہ پھٹ جائے ذہن ہی آخر

یہ سوچ درد سے بے ہوش کیوں نہیں ہوتی

بلا جواز ہی عریانیاں ہیں ، ائے وحشت

جو کچھ نہیں تو کفن پوش کیوں نہیں ہوتی

لبوں پہ دم لیے پھرتی ہے جو حیات ، اسے

نصیب موت کی آغوش کیوں نہیں ہوتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]