انداز کریمی کا نِرالا نہیں گیا

اُن سے کیا سوال تو ٹالا نہیں گیا

جب عرض کی کہ جھولی ہے خالی کرم کریں

’’اِتنا کرم ہُوا کہ سنبھالا نہیں گیا‘‘

اُن پر دُرود پڑھنے کی برکت ہے بے مثال

دِل کے نگر سے نور کا ہالہ نہیں گیا

جو بھی نبی کا ہو گیا دَر، دَر سے بچ گیا

غیروں کے دَر پہ مانگنے والا نہیں گیا

جب سے نبی کا نام لیا گھر میں بیٹھ کر

تب سے ہمارے گھر سے اُجالا نہیں گیا

یہ اُن کے جسمِ عَنبریں کا فیض ہی تو ہے

دُنیا سے خوشبوؤں کا حوالہ نہیں گیا

رب کی طرف سے منکروں کی جھولی میں کبھی

صدقہ نبی کا دوستو! ڈالا نہیں گیا

اُن کی شفاعتوں کے سبب ہی رضاؔ مِرا

پٹکا بروزِ حشر اُچھالا نہیں گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]