ان کے در سے بتاؤ کیا نہ ملا

جو نہ تم کو ملا وہ نا ، نہ ملا

ہو کے مربوط ان کے دامن سے

یہ نہ کہنا مجھے خدا نہ ملا

جو چلا ان کی راہ سے کٹ کر

زیست میں اس کو ارتقا نہ ملا

جس کا دل ان کی سمت ہے مائل

دور رہ کر بھی وہ جدا نہ ملا

ان کی رحمت بھری زباں کے سوا

اور کہیں بھی "​انا لها” نه ملا

ہم نے دیکھے بہت برے لیکن

ان کے گستاخ سا برا نہ ملا

گرد طیبہ کی طرح دنیا میں

پھر کہیں سرمۂ شفا نہ ملا

لوٹ کر رشک خلد طیبہ سے

زندگی میں کوئی مزه نہ ملا

رہ کے پیہم نبی کی یادوں میں

قدسیؔ ذوق نمو تھکا نہ ملا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]