اور کیا روز جزا دے گا مجھے

زندہ رہنے کی سزا دے گا مجھے

زخم ہی زخم ہوں میں داغ ہی داغ

کون پھولوں کی قبا دے گا مجھے

میں سمجھتا ہوں زمانے کا مزاج

وہ بنائے گا مٹا دے گا مجھے

بے کراں صدیوں کا سناٹا ہوں میں

کون سا لمحہ صدا دے گا مجھے

ٹوٹ کر لوح و قلم کی جاگیر

کوئی دے گا بھی تو کیا دے گا مجھے

میرے ہی خون میں نہلا کے شررؔ

وہ صلیبوں پہ سجا دے گا مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]