اُسے خبر تھی

اسے خبر تھی مجھے ہجر راس آتا ہے

اسے پتا تھا اداسی سے دوستی ہے مری

اسے خبر تھی سبھی درد یار ہیں میرے

وہ جانتا تھا مری غم سے ہے سلام دعا

اسے خبر تھی سبھی زخم مجھ پہ سجتے ہیں

سو ان سبھی کے لیے اس نے مجھ کو چھوڑ دیا

کہیں وہ مجھ کو کسی درد سے جدا نہ کرے

مرے اداس شب و روز میں خلل نہ پڑے

کوئی بھی زخم نگاہیں نہ پھیر لے مجھ سے

کوئی بھی غم نہ کہیں جان چھوڑ دے میری

کہیں فراق کی لذت نہ مجھ سے کھو جائے

بس اس لیے ہی مرا اُس نے ہاتھ چھوڑدیا

اسی لیے تو مرا اُس نے ساتھ چھوڑدیا

یقین مانیے دل کا برا نہیں تھا وہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]