اُس قامتِ زیبا پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور ہی ہوتا ہے وہ دل ، دل نہیں ہوتا
توفیقِ ثنا اُن کا کرم ، اُن کی عطا ہے
ہر اہلِ سُخن نعت کے قابل نہیں ہوتا
اے رُوحِ سفر ! اہلِ سفینہ پہ نظر ہو
ساحل جو نظر آتا ہے ، ساحل نہیں ہوتا
اک نام نگہبان ہو ، اک ورد محاٖفظ
پھر مرحلۂ حشر بھی مُشکل نہیں ہوتا
جب سے غمِ فرقت کی حفاظت میں ہے اخترؔ
دل تلخیٔ حالات سے گھائل نہیں ہوتا