اردوئے معلیٰ

Search

اُمّتی ان کا ہوں جو عرشِ علیٰ تک پہنچے

کیوں عدو کوئی مری رمزِ بقا تک پہنچے

 

شدتِ عشق میں لے جائے گا طیبہ اس کو

میرا ایک اشک اگر بادِ صبا تک پہنچے

 

اس کی معراجِ سعادت پہ فدا میرے سفر

نینوا سے جو کوئی غارِ حرا تک پہنچے

 

کنزِ ایمان سے ہو کر گئے سب مالا مال

وہ حدی خوان جو صحرائے وِلا تک پہنچے

 

منقسم ہوگا مدینے میں خزانہ اُٹھو

لب کو تاکید کرو حرفِ دعا تک پہنچے

 

اتنے لبریز ہیں رحمت سے وہاں کے موسم

بے دھڑک جل کے دِیا موجِ ہوا تک پہنچے

 

سبز گنبد سے کوئی گونج کا فیضان آئے

پھر یہ ممکن ہے مری بات خدا تک پہنچے

 

کتنا دلکش تھا سماں طیبہ کے بازاروں کا

صبح جو نکلے تھے خیموں میں عشا تک پہنچے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ