اُن لبوں تک اگر گیا ہو گا

شعر میرا نکھر گیا ہو گا

ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی

میری حالت سے ڈر گیا ہو گا

اعتباراُس کے دل سے دنیا کا

جانے کس بات پر گیا ہو گا؟

زہر پینے سے کون مرتا ہے

کوئی غم کام کرگیا ہو گا

پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے

کوئی زنجیر کر گیا ہو گا

برگ جھڑتے ہیں آنسوؤں کی طرح

موسمِ گل گزر گیا ہو گا

کتنا نکلا ہے سخت جاں یہ ضمیر

ہم تو سمجھے تھے مر گیا ہو گا

ناؤ ڈوبے مری زمانہ ہوا

اب تو دریا اُتر گیا ہو گا

تذکرہ میرا اُس کی محفل میں

سب کو خاموش کرگیا ہو گا

بازی ہارا ہے کب عدو سے ظہیرؔ

کچھ سمجھ کر ہی ہَر گیا ہو گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]