اُڑ گئے رنگ مگر خواب کا خاکہ اب تک

قابلِ دید بھی ہے ، شاملِ تزئین بھی ہے

دل کی دیوار کی زینت کو ضروری ٹھہرا

ایک وہ عکس کہ بے رنگ بھی ، رنگین بھی ہے

سن رسیدہ ہی سہی عشق کا کرتب لیکن

قابلِ داد بھی ہے ، لائقِ تحسین بھی ہے

ایک لہجہ کہ فراموش ہوا، یاد بھی ہے

وہ تماشہ ہے کہ اب پیاس بھی ، تسکین بھی ہے

اک بلاوا ہے مگر بند دریچوں کی طرف

ایک آواز کہ تنبیہہ بھی ، تلقین بھی ہے

عمر اس موڑ پہ ہے اب کہ تمہاری خواہش

شدتِ شوق کا اظہار بھی ، توہین بھی ہے

چیخ اٹھا ہوں تو اس چیخ کے پردے میں کہیں

تاجپوشی ہے ترے درد کی، تدفین بھی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]