اِس کے ہر ذرّے سے پیمان دوبارہ کر لو
اپنی مٹی کو مقدر کا ستارہ کر لو
برف سی جمنے لگی دل پہ نئے موسم کی
ہجر کی آنچ کو بھڑکا کے شرارہ کر لو
صحن بھر چاندنی کب راہ نوردوں کا نصیب
آنکھ میں عکس قمر بھر کے گزارہ کر لو
تلخیاں ہیں نئے منظر میں ہماری اپنی
خوش نظر بن کے یہ آئینہ گوارہ کر لو
ہجرتوں میں تو مرے یار یہی ہوتا ہے
خواب بیچو یا محبت میں خسارہ کر لو
اب تو دشمن بھی تمہارا ہی سمجھتے ہیں ہمیں
اعتبار اب تو محبت میں ہمارا کر لو
اس کے سائے میں امانت ہے کئی نسلوں کی
گرتی دیوار کو مضبوط خدارا کر لو
پار کروا کے مجھے اُس نے کہا دریا پار
ڈوبنے والا ہوں میں مجھ سے کنارہ کر لو