اِک بار اُٹھے تھے جو قدم نورِ ہدیٰ کے

رستے ہیں منور ابھی تک غارِ حرا کے

زرخیز ہوا دشتِ جہاں اُن کے کرم سے

احسان ہیں اُمت پہ فقط اُن کی گھٹا کے

ہم بھٹکے ہوئے ذہن کے شاعر ہیں جبھی تو

یہ نعت بھی لکھّی ہے وسیلے سے عطا کے

رہتی ہے ہمہ وقت مرے ساتھ یہ تسبیح

سانسوں میں پرویا ہے تجھے ورد بنا کے

بخشش سبھی کی ہوگی مجھے اتنا یقیں ہے

قرطاس پہ جو پھول کھلاتے ہیں ثنا کے

اُس در سے لگی لو ، تو لگا یوں مجھے اشعرؔ

ہیں گنج مرے ہاتھ میں اِس ارض و سما کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]