اِک تُو ہی نظر آئے جس سمت نظر جائے

اے صُورتِ دلدار! کوئی بچ کے کدھر جائے

ہم نے تو سرِ دستِ دُعا رکھ دیے دونوں

اب چاہے ترے عشق میں دل جائے کہ سر جائے

اے خُوگرِ گریہ! کوئی پل دم بھی لیا کر

آنکھوں کا یہ پانی کہیں سر سے نہ گُذر جائے

تقدیر جو بگڑی ہے تو کچھ وقت لگے گا

یہ زُلف نہیں ہے کہ سنوارو تو سنور جائے

یکسانیتِ عشق ! وہ محبوب کہیں ڈھونڈ

جو روز کرے عہدِ وفا ، روز مُکر جائے

کچھ ہے جو اِسے تیری طرف کھینچ رہا ہے

ورنہ یہ نظر اور کہیں بارِ دگر جائے

کیا راہ نکالی ہے زمانے نے کہ ہر شخص

آئے ، مجھے دیکھے ، ٹھکرائے ، گُذر جائے

!اِک عشق سرائے ہے مرا دل سو حسینو

جس جس کو ٹھہرنا ہو بِنا دام ٹھہر جائے

رنگین مزاجی کی بھی ہوتی ہے کوئی حد

فارس! دلِ آوارہ سے کہہ دو کہ سُدھر جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]