اردوئے معلیٰ

شہرِ بے رنگ میں کب تجھ سا نرالا کوئی ہے

تُجھ کو دیکھوں تو لگے عالمِ بالا کوئی ہے

 

کبھی گُل ہے ، کبھی خوشبو، کبھی سورج ، کبھی چاند

حُسنِ جاناں! ترا اپنا بھی حوالہ کوئی ہے ؟

 

ہاتھ رکھ دل پہ مرے اور قسم کھا کے بتا

کیا مِری طرح تجھے چاہنے والا کوئی ہے ؟

 

رونا آتا ہے تو یُوں تیری طرف دوڑتا ہوں

جیسے تجھ پاس مِرے غم کا ازالہ کوئی ہے

 

آخرِ شب کا سماں ، قریۂ ہجر ، ایک صدا

کوئی ہے ؟ میرے لیے جاگنے والا کوئی ہے؟

 

ٹیس اُٹھتی ہے عجب جونہی قدم اُٹھتے ہیں

پاؤں میں ہو کہ نہ ہو ، رُوح میں چھالا کوئی ہے

 

بے سبب تو نہیں لفظوں میں یہ وحشت فارس

ہو نہ ہو آپ کی غزلوں میں غزالہ کوئی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ