شہرِ بے رنگ میں کب تجھ سا نرالا کوئی ہے
تُجھ کو دیکھوں تو لگے عالمِ بالا کوئی ہے
کبھی گُل ہے ، کبھی خوشبو، کبھی سورج ، کبھی چاند
حُسنِ جاناں! ترا اپنا بھی حوالہ کوئی ہے ؟
ہاتھ رکھ دل پہ مرے اور قسم کھا کے بتا
کیا مِری طرح تجھے چاہنے والا کوئی ہے ؟
رونا آتا ہے تو یُوں تیری طرف دوڑتا ہوں
جیسے تجھ پاس مِرے غم کا ازالہ کوئی ہے
آخرِ شب کا سماں ، قریۂ ہجر ، ایک صدا
کوئی ہے ؟ میرے لیے جاگنے والا کوئی ہے؟
ٹیس اُٹھتی ہے عجب جونہی قدم اُٹھتے ہیں
پاؤں میں ہو کہ نہ ہو ، رُوح میں چھالا کوئی ہے
بے سبب تو نہیں لفظوں میں یہ وحشت فارس
ہو نہ ہو آپ کی غزلوں میں غزالہ کوئی ہے