اِک صنفِ سُخن جس کا تعلق ہے نبی سے

صد شکر کہ نسبت ہے طبیعت کو اُسی سے

انمول ہیں آنسو بھی کرو قدر کچھ ان کی

دوزخ بھی بجھا سکتے ہو آنکھوں کی نمی سے

ہیں عدل کے پیکر سبھی اصحابؓ، نبی کے

اُلفت ہے مسلماں کو بلاشبہ سبھی سے

جس طرح اُجالوں کی پرستار ہے دنیا

اے کاش ہو نفرت بھی اسے تیرہ شبی سے

ہے نام میں طیبہ کے وہ پیغامِ بہاراں

ہے جس کا تعلق دلِ مؤمن کی کلی سے

میں اُن کے غلاموں کے غلاموں میں ہوں احسنؔ

ہے کِیش مرا دُور بہت کج کُلَہِی سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]