اِک صنفِ سُخن جس کا تعلق ہے نبی سے
صد شکر کہ نسبت ہے طبیعت کو اُسی سے
انمول ہیں آنسو بھی کرو قدر کچھ ان کی
دوزخ بھی بجھا سکتے ہو آنکھوں کی نمی سے
ہیں عدل کے پیکر سبھی اصحابؓ، نبی کے
اُلفت ہے مسلماں کو بلاشبہ سبھی سے
جس طرح اُجالوں کی پرستار ہے دنیا
اے کاش ہو نفرت بھی اسے تیرہ شبی سے
ہے نام میں طیبہ کے وہ پیغامِ بہاراں
ہے جس کا تعلق دلِ مؤمن کی کلی سے
میں اُن کے غلاموں کے غلاموں میں ہوں احسنؔ
ہے کِیش مرا دُور بہت کج کُلَہِی سے