آئے بیمار جو دَر پر تو شِفا دیتے ہیں

سائلوں کو بھی وہ تو گنجِ عطا دیتے ہیں

راہ بھٹکوں کو وہ منزل سے مِلا دیتے ہیں

ڈُوبنے والوں کو ساحل سے لگا دیتے ہیں

فضل فرماتے ہوئے ہِجر مِٹا دیتے ہیں

اپنے دیوانوں کو قُربت کی ہوا دیتے ہیں

ظالموں کو بھی وہ دیتے ہیں کرم کے توشے

دُشمنِ جاں کے لیے کملی بچھا دیتے ہیں

ساقیء حشر ہیں وہ جام عطائوں والے

اپنے تشنہ کو وہ بھر، بھر کے پلا دیتے ہیں

جب کبھی یاد ستاتی ہے رضاؔ آقا کی

ہم تو سرکار کی محفل کو سجا دیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]