آج دل کو بے قراری اور ہے

غم گساری، گریہ زاری اور ہے

پاؤں زخمی ہو گئے تو یہ کھُلا

راستوں کی بردباری اور ہے

آج شب تیری خوشی کے نام تھی

جو ترے غم میں گزاری اور ہے

برملا ہنسنا نجاتِ غم نہیں

شہرِ غم سے رستگاری اور ہے

درد کی مہماں نوازی اور تھی

ضبط کی تیمار داری اور ہے

اب یہاں بکھرا ہوا ہے اور کچھ

چار سُو پھیلی خماری اور ہے

آپ نے قصّہ سُنا ہے اور ہی

داستاں جو تھی ہماری اور ہے

اُسکا یوں دامن چھُڑا لینا نہیں

زینؔ وجہ دل فگاری اور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]