اٹھ اٹھ کے دشمنوں نے سراہا ، کمال است
تو کب کہے گا کور نگاہا ! کمال است
ہونے لگی ہے ٹیس میں کچھ اس لئے کمی
زخموں پہ کوئی رکھ گیا پھاہا ، کمال است
کیا خوب مجھ پہ دھر گیا الزامِ عاشقی
کیوں میں نے اس کو ٹوٹ کے چاہا ، کمال است
رووں تو مسکراکے کہے وہ بہت ہی خوب
پاوں پڑوں تو ہنس پڑے ہاہا ، کمال است
لفظوں میں میرے آ گئی کچھ ایسی ساحری
سب لوگ بولتے رہے آہا، کمال است
تو خود بھی تخت و تاج کی صورت بلند بخت
تیری یہ سلطنت بھی تو شاہا کمال است