اپنے قلم کو ذات کا درباں کیے ہوۓ

لکھتا ہوں عشق درد کا ساماں کیے ہوۓ

پہلے تو ڈھونڈتا تھا میں مضمونِ شاعری

اب لکھ رہا ہوں خود کو ہی عنواں کیے ہوۓ

"​لکھا ہے لفظِ عشق کا معنی "​عجیب تر

عاشق پڑھیں انگشت بدنداں کیے ہوۓ

مرہم لگا رہا ہوں میں کاغذ کو دوستو

اور زخمِ دل کے سر پے نمکداں کیے ہوۓ

بھڑکا نہ دے چراغ سے آتش وہ باغ میں

کاغذ جلا رہا ہوں چراغاں کیے ہوۓ

اچھی لگی ہے لفظِ ندامت پہ گفتگو

مدت ہوئی کسی کو پشیماں کیے ہوۓ

دستورِ رہزنی سے ھیں عاشق کنارہ کش

ہوں گرچہ بند دل میں وہ طوفاں کیے ہوۓ

شورش مرے قلم کی ھے جرمِ زباں نہیں

پڑھتا ہے رازِ دل کو وہ قرآں کیے ہوۓ

اسعد ،اسد، کے شعر سے سبقت نہ لے سکا

لیکن غزل ہے نورِ گلستاں کیے ہوۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]