اک جاں بلب جنون کی شدت ہوں اور بس

اب میں فقط گمان کی صورت ہوں اور بس

معمول کی ہے بات، کوئی واقعہ نہیں

ناکامِ کارزارِ محبت ہوں اور بس

یہ کاروبارِ عشق و سخن ایک ڈھونگ ہے

میں مبتلائے ذوقِ اذیت ہوں اور بس

لازم نہیں ہوں میں تری صورت حیات کو

ائے ناگزیر ، میں تری عادت ہوں اور بس

تسکین کی طلب ہوں نہ حرفِ دعا کوئی

میں صرف اضطراب کی حالت ہوں اور بس

ائے نو بہارِ غنچہِ نو خیز ، میں فقط

لے دے کے ایک نقشِ کہولت ہوں اور بس

صورت بجز گریز ، نہیں بن سکی کوئی

میں روئیدادِ رنجِ مسافت ہوں اور بس

ائے عہدِ بد مذاق ، فقط رائیگاں ہوں میں

ائے ناشناس عمر، اکارت ہوں اور بس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]