اک دور میں میں عشق کا منکر ضرور تھا

لیکن تمہاری ذات پہ ایمان تھا مجھے

جب تک کوئی کمال کوئی بھی ہنر نہ تھا

تب معرکہ حیات کا آسان تھا مجھے

ائے موجہِ نسیمِ سحر ، میں چراغ ہوں

تیرا تو التفات بھی طوفان تھا مجھے

وہ تو شبِ فراق نے جاں مانگ لی مری

ورنہ بڑا وصال کا ارمان تھا مجھے

آخر وہی ہوا نہ ، تماشہ بنا جنوں

لاحق اسی کا خوف مری جان تھا مجھے

جب تک کھلے نہ تھے تری نفرت کے معجزے

اس دل کے شعبدوں پہ بڑا مان تھا مجھے

دیتا ضمانتیں میں زمانوں کی کیا تجھے

جب کہ مرا وجود بھی امکان تھا مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]