اک دور میں میں عشق کا منکر ضرور تھا
لیکن تمہاری ذات پہ ایمان تھا مجھے
جب تک کوئی کمال کوئی بھی ہنر نہ تھا
تب معرکہ حیات کا آسان تھا مجھے
ائے موجہِ نسیمِ سحر ، میں چراغ ہوں
تیرا تو التفات بھی طوفان تھا مجھے
وہ تو شبِ فراق نے جاں مانگ لی مری
ورنہ بڑا وصال کا ارمان تھا مجھے
آخر وہی ہوا نہ ، تماشہ بنا جنوں
لاحق اسی کا خوف مری جان تھا مجھے
جب تک کھلے نہ تھے تری نفرت کے معجزے
اس دل کے شعبدوں پہ بڑا مان تھا مجھے
دیتا ضمانتیں میں زمانوں کی کیا تجھے
جب کہ مرا وجود بھی امکان تھا مجھے