اگرچہ کاسہِ حسرت میں خاکِ پا بھی نہیں

مگر فقیر کے لب پر کوئی صدا بھی نہیں

تُو ، کم نصیب قیامت ، کہ ٹوٹنے سے رہی

میں ایک محشرِ کم بخت جو بپا بھی نہیں

کمال یہ ہے کہ وحشت کی انتہا پر ہوں

مذاق یہ ہے کہ وحشت کی انتہا بھی نہیں

عجب سیال اداسی میں آ گرا ہوں جہاں

میں ڈوبتا بھی نہیں اور تیرتا بھی نہیں

مری ہے خیر اگر بے خطا بھی مرتا ہوں

تمہارا تیر تو پھر خیر سے خطا بھی نہیں

بڑے ہی کرب کے عالم میں جان سے گزرا

وہ ایک رشتہِ بے نام تھا کہ تھا بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]