ہو چکے معتبر کمال مرے
تیر پہلو سے اب نکال مرے
دل تہہِ آب جا کے بیٹھ رہا
گھل گئے جھیل میں خیال مرے
یہ وہی لمحہِ جنون نہیں؟
کھا گیا تھا جو ماہ و سال مرے
کوزہ گر، نم خمیر میں ہے ابھی
نقش پھر ایک بار ڈھال مرے
دے گیا ذہن ہی جواب مرا
مطمئن ہوگئے سوال مرے
میں ، بہرحال نقشِ بد حالی
اور تو عین حسبِ حال مرے
میں اسے خود چھپا رہا ہوں مگر
خاک یوں زخم پر نہ ڈال مرے
جلد بازی میں پھینکتا کیوں ہے
سوچ کچھ اور استعمال مرے
خودکشی کارِ عیش ہے ناصر
اور کارِ جنوں محال مرے