ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے

بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشیں ہے

مِلتا نہیں کیا کیا، دو جہاں کو ترے در سے؟

اِک لفظ “نہیں“ ہے، کہ ترے لب پہ نہیں ہے

تُو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شبِ اسرٰی

تیرے لئے دو چار قدم عرش بریں ہے

رُکتے ہیں وہیں جا کے قدم اہلِ نظر کے

اُس کوچے کے آگے نہ زماں ہے نہ زمیں ہے

ہر اِک کو مُیّسر کہاں اُس در کی غُلامی

اُس در کا تو دربان بھی جبریلِ امیں ہے

دل گریہ کناں اور نظر سُوئےِ مدینہ

اعظم ترا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]