ایک دو آسمان اور سہی

اور تھوڑی اڑان اور سہی

شہر آباد ہوں درندوں سے

جنگلوں میں مچان اور سہی

دھوپ کو نیند آ بھی سکتی ہے

چھاؤں کی داستان اور سہی

بارشوں حوصلے بلند رہیں

میرا کچا مکان اور سہی

یہ پسینہ تو اپنی پونجی ہے

ایک مٹھی لگان اور سہی

غلطیوں سے نوازتا ہے مجھے

ایک اہل زبان اور سہی

شہر میں امن ہے کئی دن سے

کوئی تازہ بیان اور سہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]