ایک دو اشکوں سے کب غم کا فسوں ٹوٹتا ہے

آنکھیں جب دشت بنیں زور ِ جنوں ٹوٹتا ہے

کسی انجان اذیت کا ہے یہ رد ِ عمل

جب دروں جوڑتا ہوں میں تو بروں ٹوٹتا ہے

تو مرے گریے کی تحویل میں کیسے آیا

میں تو جس شخص سے ہنس کے بھی ملوں ٹوٹتا ہے

جانے والے نے بتایا نہیں جانے سے قبل

ورنہ چھت گرنی ہو تو پہلے ستوں ٹوٹتا ہے

جیسے ٹوٹا ہوں میں بکھرا ہوں ترے چاروں طرف

غور دیکھ بتا پھر کوئی یوں ٹوٹتا ہے ؟

مجھ سے نیندوں کی نگہداری کرانے والو

میں کوئی خواب بھی تعیمر کروں ٹوٹتا ہے

ایک بارش سے کہاں ہوتی ہیں آنکھیں سیراب

ایک بوسے سے کہاں نشئہ خوں ٹوٹتا ہے

اس خرابے میں بھی جو سبز ہے چہرہ میرا

میری وحشت پر ہمہ وقت سکوں ٹوٹتا ہے

بجھی کھڑکی میں کھڑا سوچ رہا ہوں حیدر

جو ستارہ ہو نظر میں وہی کیوں ٹوٹتا ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]