اے عمرِ رفتہ تیری شام و سحر میں کیا تھا

اک در میں کیا کشش تھی ، اک رہگذر میں کیا تھا

کیوں دیکھ کر اسے ہم وقفِ الم ہوئے تھے

اس دل کو کیا ہوا تھا ، اُس عشوہ گر میں کیا تھا

فکر و نظر نے کھولے کتنے رموزِ ہستی

لیکن کھلا نہ اس کی پہلی نظر میں کیا تھا

آتے ہیں یاد اکثر چھوڑے ہوئے مکاں بھی

چہروں کے ساتھ ان کے دیوار و در میں کیا تھا

تھک ہار کے ہیں بیٹھے اک دشتِ بے اماں میں

منزل کہاں تھی اپنی ، عزمِ سفر میں کیا تھا

پہلے سرشکِ غم تھے یا پھر خوشی کے آنسو

جز گریۂ ندامت اب چشمِ تر میں کیا تھا

دولت خلوص کی تھی سادہ سی بستیوں میں

ورنہ سحرؔ بظاہر اُجڑے نگر میں کیا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]