اے مطلع ایثار و مساوات کے نیر

اب اٹھ کے ترے در سے کہاں جائے گی دنیا

اب کس سے ہو ماحول کے ظلمت کا تدارک

اب تیرے سوا کون یہ ناسور بھرے گا

پھر دور جہالت کی طرف پلٹی ہے تاریخ

ہے پیش نظر آج وہی رنگ فضا کا

اب قوم پہ وہ سخت گھڑی آئی ہے مولا

جب وقت کے دھارے پہ بہی جاتی ہے دنیا

ایمان کی ضو وقتِ مہ سال میں گم ہے

ہاں حسن عمل کا نہیں اب کوئئی ٹھکانا

لذت کی صلیبوں پہ ہیں عصمت کے جنازے

معراج پہ ہے وحشتِ انساں کا تقاضہ

طاقت ہے قط حسن و قباحت کی ترازو

دولت کے ذخائر ہیں امارت کا وسیلہ

دنیا کی نظر ظم کو فن جان رہی ہے

ہر جہل کو ہے زعم کے ہے علم کا داتا

بت رکھے ہیں رنگ و نسب و قوم و وطن کے

ہے دامنِ اسلام میں یہ شرک کی دنیا

گو آج بھی الحمد سے تا آیہ والناس

قرآن کا ہر لفظ ہے اذہان پہ کندہ

الفاظ اترے نہیں حلقوم سے نیچے

پیغام پنتا نہیں اعمال کا جامہ

ہر جبر پہ سلطانیءِ جمہور کا عنواں

ہر جہل پہ علمیتِ قرآن کا سایہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]