اردوئے معلیٰ

Search

اے مطلع ایثار و مساوات کے نیر

اب اٹھ کے ترے در سے کہاں جائے گی دنیا

 

اب کس سے ہو ماحول کے ظلمت کا تدارک

اب تیرے سوا کون یہ ناسور بھرے گا

 

پھر دور جہالت کی طرف پلٹی ہے تاریخ

ہے پیش نظر آج وہی رنگ فضا کا

 

اب قوم پہ وہ سخت گھڑی آئی ہے مولا

جب وقت کے دھارے پہ بہی جاتی ہے دنیا

 

ایمان کی ضو وقتِ مہ سال میں گم ہے

ہاں حسن عمل کا نہیں اب کوئئی ٹھکانا

 

لذت کی صلیبوں پہ ہیں عصمت کے جنازے

معراج پہ ہے وحشتِ انساں کا تقاضہ

 

طاقت ہے قط حسن و قباحت کی ترازو

دولت کے ذخائر ہیں امارت کا وسیلہ

 

دنیا کی نظر ظم کو فن جان رہی ہے

ہر جہل کو ہے زعم کے ہے علم کا داتا

 

بت رکھے ہیں رنگ و نسب و قوم و وطن کے

ہے دامنِ اسلام میں یہ شرک کی دنیا

 

گو آج بھی الحمد سے تا آیہ والناس

قرآن کا ہر لفظ ہے اذہان پہ کندہ

 

الفاظ اترے نہیں حلقوم سے نیچے

پیغام پنتا نہیں اعمال کا جامہ

 

ہر جبر پہ سلطانیءِ جمہور کا عنواں

ہر جہل پہ علمیتِ قرآن کا سایہ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ