اے کاش روح مری مستفید ہو جائے
پڑھوں درود تو آقا کی دید ہو جائے
میں حرف حرف ملاؤں بہت قرینے سے
بنے جو نعت تو لفظوں کی عید ہو جائے
مدینہ ڈھال لے یوں قلب اپنے قالب میں
نظر جھکی رہے دل کی مرید ہو جائے
حضور عشق کا دل میں جو درد رہتا ہے
یہ درد اور بڑھے اور شدید ہو جائے
حضور شعر کہوں آپ ہی کی مدحت کے
حضور شاعری میری مفید ہو جائے
جواز پوچھے کوئی گر عطا غلامی کا
یہ نعت حشر میں میری رسید ہو جائے