اے ہستی پاکِ کون و مکاں تو روحِ روانِ ہستی ہے

دنیا ہے یہ تیری منت کش تو ہے تو یہ بستی بستی ہے

وحدت کے خمستاں سے تیرے اک بار ہوا جو ساغر کش

تا حشر نہ اتری مستی پھر کچھ ایسے غضب کی مستی ہے

ہے تیری طلب ہی جانِ طلب اس کار گہِ دو روزہ میں

وہ آرزو تیری آرزو ہے جو سب کے دلوں میں بستی ہے

آہنگ بھرا اک نغمہ کا ہر پردۂ سازِ ہستی میں

اب کیفِ نوائے ہستی اک اب ایک نوائے ہستی ہے

سمجھیں کہ نہ سمجھیں اہلِ ہوس مانیں کہ نہ مانیں اہلِ غرض

حقاً ترے دینِ قیم کی ہر دین پہ بالادستی ہے

انوارِ خدا کا مرکز ہے وہ روضۂ انور صلِّ علیٰ

وہ شہرِ مدینہ کیا کہئے انوارِ خدا کی بستی ہے

اس رات کی باتیں جب سے سنیں معراج کا قصہ جب سے سنا

اس دن سے ہماری نظروں میں یہ اوجِ فلک بھی پستی ہے

اس درجہ بڑی وہ ہستی ہے ہستی نہیں اس سے کوئی بڑی

گر اس سے بڑی ہستی پوچھیں تو ایک خدا کی ہستی ہے

امت کی طرف محبوبِ خدا رحمت کی نظرؔ فرمائیں کہ اب

مائل بہ تنزل ہے ہر دن ہر گام بہ سمتِ پستی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]