بارگاہِ قدس میں یوں عزت افزائی ہوئی

سب فرشتوں کی مرے آگے جبیں سائی ہوئی

میرے اعمالِ سیہ کی جب صف آرائی ہوئی

حشر میں اٹھی نہ آنکھیں میری شرمائی ہوئی

جس قدر بھی غم ہو دل میں عندلیبوں کے ہے کم

روٹھ جائے جب گلستاں سے بہار آئی ہوئی

مختصر قصہ پرستارانِ مغرب کا ہے یہ

اپنے سر لے لیں بلائیں اُس کے سر آئی ہوئی

آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے برسے گی ابھی

مطلعِ دل پر جو ہے غم کی گھٹا چھائی ہوئی

دیکھتا ہوں مٹ چکا ہے امتیازِ خیر و شر

چشمِ دنیا سے نظرؔ اف ختم بینائی ہوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]