باصواب آئے ناصواب آئے

آہِ دل کا مگر جواب آئے

سرِ محفل وہ بے نقاب آئے

کہنے والوں کو کچھ حجاب آئے

بن ترے کوئی شب کہاں گزری

تو نہ آیا تو تیرے خواب آئے

جمع ہیں اہلِ ذوق و اہلِ صفا

ساقیا اب شرابِ ناب آئے

بزمِ ہستی میں کون ٹھہرا ہے

جو بھی آئے وہ پارکاب آئے

دل کی بستی بھی کوئی بستی ہے

آئے دن اس میں انقلاب آئے

راہِ حق میں بڑے مسافر تھے

کم ہی نکلے جو کامیاب آئے

صبح تک آہ و نالہ و گریہ

رات لے کر بڑا عذاب آئے

جب ہوا خونِ آرزوئے دل

اشک آنکھوں میں بے حساب آئے

دل وہ بخشا نظرؔ کو فطرت نے

ہر بری شے سے اجتناب آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]