بخت میں ایسی کوئی شام نہ ہو

ساتھ تجھ جیسا خوش خرام نہ ہو

چل پڑوں میں انا کے رستے پر

یہ سفر عمر بھر تمام نہ ہو

ملنے آ جانا میرے بنجارے

جب محل میں کوئی غلام نہ ہو

چل پڑیں لوگ جانبِ دریا

اور کشتی کا اہتمام نہ ہو

ہجر تا عمر ساتھ رہ جائے

یہ رفاقت بھی چند گام نہ ہو

مذہبِ عشق کی شریعت میں

مجھ پہ اے شخص تو حرام نہ ہو

کر دعا ، میرے دل میں تیرے خلاف

صرف نفرت ہو ، انتقام نہ ہو

والہانہ ہو عشق کومل سے

یونہی رسمی دعا سلام نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]