بس لا تعلقی کی فضا درمیاں نہ ہو

نا مہرباں سہی تو اگر مہرباں نہ ہو

تو شکوۂ جفا سے مرے سرگراں نہ ہو

اب جی میں طے کیا ہے کہ منہ میں زباں نہ ہو

لوحِ جبیں اٹھائے رکھوں سر پہ کس لیے

سر تن پہ کیوں رکھوں جو ترا آستاں نہ ہو

حرص و ہوس کی راہ میں اف کارواں چلا

منزل کسے خبر ہے کہاں ہو کہاں نہ ہو

ملتا نہیں سراغ تری یاد کا ہمیں

چمٹی ہوئی ہی دل سے جو یادِ بتاں نہ ہو

اظہارِ غم کے واسطے آنکھیں ہی کیا ہیں کم

آزادیِ زبان و بیان و فغاں نہ ہو

جو دل میں رہ گئی تری حسرت نہ ہو کہیں

لب تک نہ آئی جو وہ تری داستاں نہ ہو

آتا نہیں ہے بزمِ سخن میں کوئی مزہ

جب تک نظرؔ تمہیں سا کوئی خوش بیاں نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]