بس وہی سنتا ہے دُعا سب کی

در گزر کرتا ہے خطا سب کی

وہ جو رازق ہے کُل جہانوں کا

اُس کے قبضے میں ہے غذا سب کی

بس وہی ایک سب کا داتا ہے

جھولیاں بھرتا ہے خدا سب کی

حیّ و قیوم، ذاتِ باری ہے

آئے گی دیکھنا قضا سب کی

جتنے اَمراض ہیں زمانے میں

اس کے ہی پاس ہے دوا سب کی

رب نے پانی کی دی ہمیں نعمت

زندگی ٹھہری ہے ہَوا، سب کی

چاند سورج میں نور کس کا ہے

ربِّ کعبہ سے ہے ضیا سب کی

بس وہی ایسا اِک مصوّر ہے

صورتیں رکھتا ہے جدا سب کی

بندہ طاہرؔ ترا ہے عرض گزار

اے خدا اونچی کر نَوا سب کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]