آج معروف نعت گو شاعر ڈاکٹر ریاض مجید کا یوم پیدائش ہے

( پیدائش: 13 اکتوبر 1942ء )
——
اردو زبان کے صف اول کے نعت گو شاعر اور محقق ریاض مجید 13 اکتوبر 1942ء کو جالندھر کینٹ مشرقی پنجاب (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔
1975ء میں ریاض مجید نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد گرامی وحید قریشی کی نگرانی میں ’اردو نعت‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے مقالے کا خاکہ جمع کروایا جس کی منظوری غالباً مئی 1976 میں ہوئی 1980ء میں اس مقالہ کی تکمیل ہوئی اور قریباً ایک سال بعد اس پر ڈگری تفویض کی گئی۔
ڈاکٹر ریاض مجید پر 2021 میں ریسرچ سکالر ناصر آفریدی نے "ڈاکٹر ریاض مجید کی علمی و ادبی خدمات ” کے موضوع پر مقالہ لکھ کر سرحد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ ان کا وائیوا پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے لیا ۔
پروفیسر گورنمنٹ کالج، فیصل آباد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔
——
نعتیہ مجموعے
——
حی علی الثنا، (پنجابی نعتیہ ہائیکو )، 1991ء
اللّھم صلی علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم(نعتیہ مجموعہ) ۔ 1994ء
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم (اردو نعتیہ دیوان)۔ 2003ء
اللّھم بارک علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم(نعتیہ مجموعہ) ، 2005ء
سیدنا رحیم صلی اللہ علیہ وسلم (نعتیہ مجموعہ)، 2013ء
سیدنا کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نعتیہ مجموعہ)، 2018ء
ربنّا لک الحمد (حمدیہ دیوان)، 2018ء
کلیات ِ ریاض مجید – 2020ء
——
ریاض مجید کی نعت گوئی اور تراکیب سازی
——
ریاض مجید نے اردو نعت کی لفظیات جدت طرازی سے کام لیا ہے ۔ آپ نے سامنے کی سابقوں اور لاحقوں سے دلکش نعتیہ تراکیب اخذ کی ہیں ۔ کچھ مثالیں دیکھیے
——
بڑے آداب ہیں اس احترام آباد طیبہ کے
یہاں نبض جہاں تیز اور ہوا آہستہ چلتی ہے
——
ہوائیں مغفرت آثار ہوتی جاتی ہیں
رواں ہے سوئے حرم قافلہ درودوں کا
——
سفر مدینے کا حُب خیز اور بھی ہو اگر
رہِ سفر میں کوئی نعت دوست مل جائے
——
اے خوشا! یہ سرشاری جو اثاثۂ جاں ہے
نعت دار سوچوں سے دل بہشت ساماں ہے
——
ہوئی جاتی ہیں کیسے نعتوں پہ نعتیں
حرم کا سفر نعت آور بہت ہے
——
مغفرت رُو ہو لفظ لفظ ترا
حمد میں التجا ہو بخشش کی
——
سیرت شناس دوست جو دو چار جمع ہوں
حب دار ہو مکالمہ و گفتگو کا رنگ
——
پیش خدمت ہے ڈاکٹر ریاض مجید صاحب کا ایک مضمون : برسبیل نعت تلفظ و املاء
——
اظہار کسی بھی موضوع کا ہو اور صنف کوئی بھی ہو زبان و بیان کے مروّجہ اصولوں اور قرینوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے محتاط اور ذمّہ دار شاعر اپنے آپ کو لُغت (Dictionary) کے پابند رکھتے ہیں منقبت،نعت،حمد ایسی اصناف ہیں جن میں قرآن کریم، احادیث و سیرت ِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی الفاظ،کئی اسمائے مبارکہ ایسے بھی آتے ہیں جنہیں لکھنے اور بولنے میں ہم لوگوں سے کبھی کبھار سہو ہو جاتا ہے یا ہماری توجہ املااور تلفظ سے انحراف کی طرف نہیں جاتی شاعری خصوصاً نعت اور عقیدت نگاری ہی کی دوسری صورتوں(حمد و منقبت وغیرہ) میں زیادہ احتیاط درکار ہے اوراردو نعت کے معاصر منظر نامے میں تلفظ اور املا کے حوالے سے جو بے احتیاطیاں سہواً ہو جاتی ہیں یا نادانستہ طور پر رہ جاتی ہیں ان کی طرف توجہ دینے اورلُغت کے قواعد کوپیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہم کو دامن اُن کو گنجِ شائگاں بخشا گیا
——
اللہ
ہم اللہ کے پاک اور بابرکت اسم سے برسبیل نعت:تلفظ و املا کے مسئلہ کا آغاز کرتے ہیں یہ ال۔لاہ آگاہ( مفعول) کے وزن پر ہے الّا (فعلن) کے وزن پر نہیں اساتذہ اور ذمہ وار شاعرہمیشہ اسے صحیح تلفظ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ہم لوگ کبھی کبھار اسے صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں باندھتے آج کل مختلف رسائل و کتب میں چھپنے والی نعتوں میں کہیں کہیں اللہ کا تلفظ الّا کے وزن پر آتا ہے مثلاً یہ شعر دیکھیے:
——
اللہ کی رحمتیں بھی چلی آئیں ساتھ ساتھ
پہنچے جو آنحضور مدینہ منورہ
(سرور حسین نقشبندی)
——
ایسی جگہوں پرمولا، آقا،خالق یا اللہ تعالیٰ کا کوئی اور نام استعمال کر کے الّا کے تلفظ سے اس لفظ کو بدل لینا چاہیے ۔اسی طرح سبحان اللہ،ماشاء اللہ،الحمداللہ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھی متوجہ اور محتاط رہنا چاہیے بعض بحروں کے آخر میں اگر یہ الفاظ آ جائیں تو عروضی اعتبار سے اس کا جواز نکل آتا ہے مثلاً :
——
ہم سفر ہوگا نبی کا کرم، ان شاء اللہ
سر خرو جائیں گے دنیا سے ہم ان شاء اللہ
حمد کس طور سر افراز ہے ماشاء اللہ
رخِ ہر لفظ گل انداز ہے ماشاء اللہ
وہ مرے پاس ہے سبحان اللہ
جزو احساس ہے ماشاء اللہ
نگاہوں میں ہے پھر باب حرم الحمد اللہ
کیا مالک نے پھر لطف و کرم الحمد اللہ
——
البتہ اگر اللہ اللہ کے الفاظ آجائیں یعنی دوبارااللہ کا لفظ اکٹھا تو فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں اس کا وزن صحیح عربی تلفظ کے مطابق نظر نہیں آتا مثلاً یہ مصرعے دیکھیے:
اللہ اللہ شۂ کونین جلالت تیری
اور
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
یہاں پہلے مصرع میں تینوں جگہوں پر اللہ کالفظ الّا کے وزن پر ہے۔میں نے بڑی کوشش کی کہ مجھے اللہ االلہ جب یہ دونوں الفاظ اکٹھے آتے ہیں (عام استعمال میں یا استعجابیہ حالت میں) صحیح تلفظ میں ملیں مگر ایسا بہت کم ہوا صرف اَن بحروں میں جہاں عروض کے اعتبار سے اس کی گنجائش تھی ایسی مثالیں دستیاب ہیں مثلاً:
——
اللہ ‘ اللہ ‘ اللہ‘ اللہ
ہم کو دکھا دین کی سیدھی شہراہ
پیش نظر ہے اس شاہ کا دَر
——
یہ بھی پڑھیں : اِتِّبَاعِ سرورِ عالم سے روشن ہو عمل!
——
الحمداللہ ، اللہ اکبر
مخصوص بحور و آہنگ کے علاوہ اللہ اللہ اور اللہ کے نام کے ساتھ کثرت استعمال میں آنے والے مرکبات الحمداللہ ،بسم اللہ ، سبحان اللہ،ماشاء اللہ،ان شا اللہ وغیرہ کے استعمال میں اکثر اللہ الّا کے وزن پر نظر آتا ہیں مثنوی مولانا روم کا ایک مصرع دیکھیے جس میں پانچ بار یہ لفظ الّا کے وزن پر ہے۔
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ کرد
سبحان اللہ
سبحان اللہ ۔۔۔۔میں سبحان کا لفظ سُب حان ایمان،سلطان کے وزن پر ہے بعض شاعروں کے ہاں تلفظ میں اس کی ح واضح نہیں ہوتی اور شبان کے تلفظ میں اس کو برتا جاتا ہے خصوصاً بحر (مفاعلین مفاعلین مفاعلین مفاعلین )والی نعتوں میں کچھ شاعر سبحان اللہکو سبان اللہ کے تلفظ پر باندھتے ہیں مثلاً:
مرے ہونٹوں پہ تیرا ذکر ہے دائم سبحان اللہ۔۔۔ اس میں سبحان کی ح تلفظ میں نہیں آرہی ایسی ردیف کو مرے اللہ میں بدلا جا سکتا ہے کئی بحروں کے آخر میں اللہ کے لفظ کے آخر میں ہ کی گنجائش نکل آتی ہے (جیسے فعلن سے،فعلان کے تلفظ میں)
ان شاءاللہ
ان شاء اللہ۔۔ یہ قرآنی ترکیب ہے اکثر اہل قلم اسے انشا ء اللہ لکھتے ہیں اس بارے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ان شا اللہ صحیح قرآنی املا ہے۔
رحمت للعالمین
رحمتِ للعالمین۔۔۔۔یہ قرآنی الفاظ ہیں۔
اکثر نثر اورشاعری (نعت)میں رحمت اور للعالمین کے درمیان الف لکھا جاتا ہے کئی کتابوں کے ناموں اور انتسابوں میں رحمت اللعالمین لکھا دیکھا گیا ہے جو غلط ہے اور قرآنی الفاظ میں تحریف و اضافہ کے ذیل میں آتا ہے دانستہ ایسی کوشش بہت بڑا گناہ ہے عقیدت کے اظہار میں عقیدہ مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے بعض مسجدوں اور علمی اداروں سے شائع ہونے والی تحریروں میں رحمت للعالمین میں الف کی شمولیت دیکھی ہے اخباری کالموں میں ،نعتوں میں،بیزوں اور دیواروں کی جگہ پریہ ترکیب الف کے ساتھ نظر آتی ہے بعض اوقات ہم مسودہ کاتبوں اور کمپوزروں کے سپرد کرتے ہیں وہ رحمت للعالمین کو رحمت اللعالمین لکھ دیتے ہیں اس بارے توجہ دینے کی ضرورت ہے رحمت اور للعالمین میں الف نہیں ہے۔
۰رحمتہ للعالمین [رَمَ تن /تل لِ ل عالَ]بحوالہ ۱۴۵۵،کالم ۳،لغت نامہ و ہخدا،جلد اوّل
البتہ اگر آپ رحمتہ العالمین لکھنا چاہتے ہیں تو اس میں الف کا شمول ضروری ہے۔
رحمتہ العالمین ،بحوالہ ۱۴۵۵،کالم ۳،لغت نامہ و ہخدا جلد اوّل،دَمَ قل عالَ
صلوا
صلّوا۔۔۔اسی طرح صلّوا کا لفظ ہے عربی قواعد کے مطابق یہ لفظ الف کے ساتھ ہی صحیح ہے لیکن کئی جگہوں پر صلّوا،قولوا،سیروا کے الفاظ عربی قواعد زبان کے خلاف صلّو، قولو، سیِرو لکھے نظر آتے ہیں ایسے الفاظ کا املا الف کے ساتھ ہے اگرچہ ان کے تلفظ اور وزن میں فرق نہیں پڑتا مگر ان کا املا صحیح ہونا چاہیے یعنی الف کے ساتھ۔
مزمل اور مدثر
مزّمل اور مدّثر۔۔۔۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآنی اسمائے مبارکہ ہیں ہماری نعتوں میں ان کا تلفظ خال خال ہی صحیح دیکھنے میں ملتا ہے اکثر شاعروں نے ان الفاظ کو فعولن کے وزن پر استعمال کیا ہے مثلاً:
مدّثر ، مزّمل ہمارے نبی
وہ نبیوں میں ہیں سب سے پیارے نبی ………… صحیح تلفظ کی مثالیں ملاحظہ ہوں
——
مدثّر و مزّمّل و احمد کی ہے امّت
اللہ کرم کر ، یہ محمّد کی ہے امّت
——
سید
سیّد کے لفظ کو بھی ہم لوگ احمد کے قافیہ پر باندھ لیتے ہیں اس لفظ کاصحیح تلفظ ساجد،مسجد ا ور عابد ہے زیر کے ساتھ اگرچہ بولنے میں (بقولِ فرہنگ تلفظ:شان الحق حقی)یہ زبر کے ساتھ غلط العام یا غلط العوام ہے (یعنی سعید اور سرحد کے وزن پر)مگر اسے شعر میں برتتے ہوئے بھی محتاط رہنا چاہیے اور اسے عربی لغت کے مطابق عابد ہی کے وزن پر باندھنا چاہیے۔
مواجہ
مواجہ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی جالیوں کے سامنے کی جگہ جہاں کھڑے ہو کر سلام پیش کرتے ہیں)عربی میں مواجہتہ /مواجہہ باندھا جاتا ہے مگر فارسی لغات میں اس کے دو لفظ مواجہ/مواجہہ دونوں تلفظات ملتے ہیں(مشابہ/مزابہت کے وزن پر)اردو میں اس کا تلفظ(بحوالہ اردو نعت:اردو ڈکشنری بورڈ کراچی)مواجہ ہی ہے ہمارے شاعروں میں اس کا چلن اسی وزن (مدینہ )کے وزن پر ہے کچھ شاعروں نے اسے عربی تلفظ کے التزام کے ساتھ بھی باندھا ہے مثلاً یہ شعر دیکھیے۔
——
مَیں چپ تھا ہو رہی تھی مرے ترجماں کی بات
پیش مواجہہ مرے اشکِ رواں کی بات
(شاکر القادری)
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
——
یہ بھی پڑھیں :تذکرے چاروں طرف شاہِ اُمم ! آپ کے ہیں
——
برسبیلِ نعت کے سلسلہ ہائے مضامین میں زیر نظر ذیلی موضوع املا وتلفظ میں سب سے اہم اور نازک مسئلہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اسم مبارک کی کتابت اور کمپوزنگ کے حوالے سے ہے کمپوزنگ کے آغاز قریبا (گزشتہ صدی میں) اسّی کی دہائی سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک پر کا نشان ڈالا جاتا تھا آپ کے حوالے سے نثر میں اگر کوئی ضمیر وہ ،اُن، تو، تمہارا وغیرہ آتی تو اس کے تخصّص کی بھی کے ساتھ نشاندہی کر دی جاتی اب کمپوزنگ سے حاصل ہونے والی آسانیوں میں صلی اللہ علیہ وسلم کی عبارت ایک لگیچر،آئی کون،سٹاک فریزعلامت اختصاری یا جس پر دستیاب ہے اور دوسری کمپوز کی جارہی کمپوزنگ سے مختلف ہے مثلاً اگر کمپوزنگ 18 پوائنٹ میں ہو تو یہ دردری عبارت یا شائد 8اس سے بھی کم جس پوائنٹ میں ہو وہ بہر حال رواں عبارت سے چھوٹے فانٹ سائز میں ہوتا ہے اور دوسری عبارت کے مقابلے میں املائی تخضیف کا حامل ہوتا ہے اگر اس نشان کو رواں کتابت کے فانٹ میں لکھاجائے تو پھر سطر کی ترتیب اور موزونیت متاثر ہوتی ہے۔
کبھی کبھار ایک ایک مصرع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک پانچ پانچ چھ چھ بار آجاتا ہے مثلاً یہ شعر دیکھئے:
——
نبی ، رسول ،بشیر، اُمیِّ،شاہد اور رحیم
محمد، ابطحی، مدّثر و رؤف و کریم
——
اب درود کی علامتوں کے ساتھ اس کی مختلف شکلیں دیکھیے۔
——
نبی ، رسول ،بشیر ، اُمیِّ،شاہد اور رحیم
محمد، ابطحی، مدّثر و رؤف و کریم
——
نبی ، رسول ،بشیر ، اُمیِّ،شاہد اور رحیم محمد ، ابطحی، مدّثر و رؤف و کریم
ایسی صورت میں اگر آپ ہر اسم رسول اور ضمیر پر صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ شامل کریں گے تو مصرع کی کمپوزنگ کے علاوہ اس کی قرات پر بھی اثر پڑے گا یہ بات یاد رہے کہ ا گر قاری صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھتا اور اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر اس سے آگے گزر جاتا ہے تو وہ گنہ گار ہو جاتا ہے لکھنے والا یا ٹائپ کرنے والا نہیں اس عبارت کو نہ پڑھنے والا گناہ کا ارتکاب کاتب ہو جاتا ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے محتاط سے محتاط انسان سے بھی اس ضمن میں خطا سرذر ہو سکتی ہے اور مصرعے کو روانی میں پڑھتے ہوئے قاری سے ان الفاظِ درود کے بارے میں صرفِ نظر ہو سکتا ہے اور یوں وہ گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
نثر کی بات اور ہے شاعری میں بہر حال آہنگ کا التزام کیا جاتا ہے آہنگ کا مسئلہ شعر کے ساتھ اس طرح جُڑا ہُوا ہے جیسے بدن کے ساتھ روح۔۔۔واضح رہے کہ مصرع میں ترا کی جگہ تیرا لکھنے اور پڑھنے سے بھی آہنگ میں خلل واقع ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اس میں مقدس عبارت درور شریف کو شامل کیا جائے اور اس شمول سے وہ مصرع بے آہنگ ہو جائے بقول کسے:
——
داندآں کس کہ فصاحت بہ کلامے دارو
ہر سخن جائے و ہر نقطہ مقامے دارو
——
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے یہاں درود کی تنقیص یاتخفیف مراد نہیں درود شریف کے ایک ایک حرف پر ہماری ہزاروں جانیں قربان درود ہزاروں مبارک اذکار کا خلاصہ،ثمر اور ماحصل ہے اس کے فضائل بیان کرنے کے لیے عمرِ خضر بھی کم ہے یہاں بات صرف شعری آہنگ کے حوالے سے کی جا رہی ہے ۔شعری آہنگ اظہار کی تاثیر کا باعث ہوتا ہے الفاظ بعنیہٖ وہی بھی ہوں مگر ان کی ترتیب کا ذرا سا اختلاف بات کی تاثیر ختم کر دیتا ہے غالب کا یہ مصرع دیکھیے:ع
تھی وہ اک شخص کے تصورّ سے
دوسرا مصرع(اب وہ رعنائی خیال کہاں) پہلے مصرع میں ایک لفظ کی ترتیب بدل کر اسے یوں لکھیں۔
وہ اک شخص کے تصور سے تھی
ہم نے شروع کے لفظ ’تھی‘کو وہاں سے اُٹھا کر آخر میں لکھ دیا اگرچہ نثر کے اعتبار سے مصرع کی ترتیب صحیح ہو گئی لیکن آپ دیکھیں کہ ان الفاظ کی مصرع والی ترتیب میں سے کچھ چیز غائب ہو گئی ہے کہی گئی بات کی تاثیر،یا اور کوئی جادو ئی کیفیت یا طلسماتی اثرات الفاظ کے اندر سے نکل گئے ہیں۔اسی طرح شعر کے اندر کچھ اور لفظ شامل کرنے سے بھی نہ صرف اس کی تاثیر متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ بے وزن ہو جاتا ہے مثلاً غالب کے اسی مصرعے کو یوں پڑھے
(روحِ غالب سے بہت ہی معذرت کے ساتھ )
تھی وہ اک شخص اللہ بخشے کے تصور سے ۔۔۔۔۔ دو لفظ بیچ میں شامل کر دیں چاہے وہ دعائیہ ہی کیوں نہ ہوں اس طرح مصرعہ خارج ازوزن اور بے ترتیب ہو جاتا ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کون جانے کس بلندی پر مرے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
——
اب نعت کے حوالے سے ہم دو مثالیں پیش کرتے ہیں ان شعروں کو دیکھیے:
——
سلام پڑھتے ہوئے ہم نہ دیکھ پائیں مگر
جواب دیتے ہوئے وہ تو ہم کو دیکھتے ہیں
——
اب اس شعر کو یوں پڑھے:
سلام پڑھتے ہوئے ہم نہ دیکھ پائیں مگر
جواب دیتے ہوئے وہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم کو دیکھتے ہیں۔ایک مثال اور دیکھیے:
——
اگر یہ سچ ہے کہ اذکار چہرہ رکھتے ہیں
تو پھر حضور کی صورت ہی ہوگا روئے درود
——
اب اس شعر کو یوں پڑھے:
——
اگر یہ سچ ہے کہ اذکار چہرہ رکھتے ہیں
تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ہی ہوگا روئے درود
——
آپ نے دیکھا کہ اگر صلی اللہ علیہ وسلم کے التزام کے ساتھ یہ شعر پڑھے جائیں تو ان مصرعوں کا (جس میں آپ کا ذکرِ مبارک آیا ہے)آہنگ‘ شعر والا آہنگ نہیں رہے گا بلکہ نثر والابھی نہیں اور اگر آپ یہ شعرِ نعت پڑھتے ہوئے درود کی عبارت چھوڑتے ہیں تو آپ گناہ گار ہو جاتے ہیں۔
درود شریف بہر حال نعت گوئی سے ا فضلِ ورد،شغل،عمل ،ذکر اور عبادت ہے ۔اردو میں عمدہ سے عمدہ اعلیٰ نعت گو‘ اچھی سے اچھی نعت بھی لکھے تو وہ ایک بار پڑھے گئے صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی اہمیت اور رتبے کو نہیں پہنچ سکتی۔
نعت لکھتے اور پڑھتے ہوئے آپ بہر حال یہ پیش نظر رکھیے کہ یہ کارِ خیر اور شغلِ مبارک اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا تذکار ہے مگر یہ درود نہیں آپ شعری زبان اورتلازماتی بہاؤ میں نعت کو لاکھ، درود نما ذکر کہہ لیں مگر یہ درود کے مبادل یا مماثل نہیں۔۔۔لہٰذا نعت خوانی کو بعینہِٖ درود خوانی نہ سمجھیے اور نہ اس کو درود بنانے پر اصرار کریں۔
نعت میں اسمائے رسول مبارکہ کے ساتھ درود کے شمول کے حوالے سے اب تک جو نکات سامنے آئے وہ یہ ہیں:
۱نعت میں اسما ئے رسول کے ساتھ کمپوز ہونے والے الفاظ درود ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کو لکھتے ہوئے املائی تخفیف روارکھی جاتی ہے جو کسی طور مناسب نہیں۔
۲رواں عبارت اور الفاظ درود ایک جیسے سائز میں کرنے سے متن کی سطر متاثر ہوتی ہے ۔
۳درود کی عبارت نہ پڑھنے سے قاری گناہ گار ہو جاتا ہے۔
۴بعض مصرعوں میں دو دو ،تین تین ،چار چار بار آپ کا اسم مبارک آنے سے مصرع کی ساخت نہ صرف بے آہنگ ہو جاتی ہے بلکہ وہ شاعری نہیں رہتی ۔
۵درود خوانی نعت خوانی سے ہزاروں گنا افضل وظیفہ ہے لہٰذا آپ نعت لکھتے اور پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیں کہ نعت درود نہیں ہے یہ شعری آہنگ میں کیا جانے والا اظہار محبت و عقیدت ہے اس میں موضوع کی نزاکت کے ساتھ آہنگ کا التزام بھی ضروری ہے اور کسی بھی زائد لفظ کے شمول سے شعر خارج از آہنگ ہو جاتا ہے اور وہ شعر نہیں رہتا۔ یہ مسئلہ دراصل علامات اختصاری کا ہے جس طرح قرآن کریم کی عبارت اور آیات کے دوران اور خاتمے میں بعض علامات درج ہوتی ہیں وہ پڑھنے اور دہرانے کے لیے نہیں صرف سمجھنے اور ذہن میں رکھنے کے لیے ہوتی ہیں اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے تخصص کو واضح کرنے کے لیے ہمارے ا کابرین چند علامات کا استعمال کرتے رہے ہیں لغت نامہ د ہخدا عربی،فارسی ،اُردو تمام شرقی زبانوں میں سے ایک انتہائی اہم،وقیع لغت ہے( جو پہلے پچاس ضخیم جلدوں میں شائع ہو اتھا اب اسے چھوٹے فانٹ میں 16 میں شائع کیا گیا ہے اس کا ایک متوسط ایڈیشن بھی دوضخیم جلدوں میں شائع ہوا ہے )یہ لغت دانشکدہ تہران کی طرف سے فاضل اور بین الاقوامی حیثیت کے حامل فارسی ماہرین لغت کے زیر اہتمام مرتب ہوتا اور چھپتا ہے اس میں ان علامات اختصاری کو حروف ہی سے واضح کیا گیا ہے۔ مثلاً:
ص نشانہ اختصاری ومخفف صلی اللہ علیہ وآلہ(۱۸۸۱ کالم ۱ ،جلد دوم) اسے اور ص لکھا جاتا ہے۔(یہ نشان اختصاری ومخفف صفحہ بھی ہے)
رضہ[رَ ض ہ]علامت اختصاری رضی اللہ عنہ(۱۴۷۷ کالم تین) رضھم[رَھُ]علامت اختصاری رضی اللہعنھا۔ رضی اللہ عنہ ۔رضی اللہ عنھا۔رضی اللہ عنھم۔رضی اللہ عنھما
ان سب دعائیہ جملوں کے لیے کہ اللہ اس مرد سے ،عورت سے،ان مردوں سے،ان عورتوں سے راضی ہوا پر ؓ/رضہ/رضھم/ رضھماکی علامت اختصاری درج کی جاتی ہیں۔اسی طرح صحابہ کے لیے یہ علامات اختصاری ہیں۔
فرہنگ متوسط دھخدازیرِ نظر دکتر سید جعفر شہیدی…لغت نامہ و دہخدا دانشگاہ تہران (زستان ۱۳۸۵)
مجھے گزشتہ سالوںوار برٹن کی سالانہ نعتیہ کانفرس کا ایک دعوت نامہ ملا جس میں کلمہ طیبہ میں آپ کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم یوں لکھا ہوا تھا۔ لاالہ الّا اللہ محمد رسول اللہ
——
یہ بھی پڑھیں : نعت میرے آقا ! میں یوں لکھوں تو اچھا ہو
——
سیف الملوک ،معروف پنجابی شہکار کے مصنف میاں محمد بخش ہیں جب ان کا کلام مجالس میں پڑھا جاتا ہے تو مقطع میں ان کا نام آنے پر کئی سامعین صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کر انگوٹھا چومتے اور آنکھوں کو لگاتے نظر آتے ہیں اور شاعر کے نام کو حضورا کرم کی ذات والا …نام سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری سادہ لوحی اور اس حوالے سے کی جانے والی خطائیں معاف کرے۔
نعت میں شعری آہنگ کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے اکابرین (شاعر،محدّث،فقیہہ،مفسّر اور معروف اہلِ قلم)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک پر کا نشان ڈال دیتے ہیں جس سے قاری کو اس بات کی نشان دہی ہو جاتی ہے کہ اس ضمیر یا اسم کا اشارہ رسول اکرم کی طرف ہے قاری اپنے ذوق،مزاج،مقام اور ساعتِ مطالعہ کے حوالے ‘مناسبت اور سہولت سے صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ دوران مطالعہ زیرِلب دہرا بھی لیتا ہے اور اگر کسی وقت اس نشان سے (ص سے)صرف نظر بھی ہو جاتا تھا تو وہ گناہ گار نہیں ہوتا ہے۔ نعت کے املا کے باب میں آپ کے اسم مبارک کے ساتھ درود کاشمول ایک توجہ طلب مسئلہ ہے مجھے امید ہے شعری نزاکتوں سے آگاہی رکھنے والے با ذوق اہل قلم اس بارے اپنے نتائج فکر کا اظہار فرمائیں گے۔
(مَیں نعت اور شاعری میں آپ کے اسم مبارک اور ضمیروں پہ کمپیوٹر سے پہلے کے دورِ کتابت کی طرح کا نشان ڈالتا ہوں اور نثر میں اسی سائز اور رسم الحظ میں صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لکھتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میرا کمپوزر بھی کمپیوٹر کا طے شدہ مخصوص نشان استعمال نہ کرے۔
یہ مسئلہ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے اسے کمپوزر حضرات کے حوالے نہیں کرناچاہیے اگر آپ اسے علامت اسم و ضمیر رسول کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں تو کی علامت استعمال کریں ورنہ املا کی تخفیف کے بغیر رواں اور جاری سائز میں صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لکھے جائیں اس سے مصرع کی جسامت ،سائز اور الائنمنٹ میں (اورمصرع کے شعری آہنگ میں)فرق ضرور پڑے گا لیکن قاری اسے صرف نظر کرنے کا گناہ گار نہیں ہوگا۔
اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نعت کے اوپر عنوان کی جگہ (عنوان کے طور پر نہیں) صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ لکھ دیئے جائیں ۔۔۔قابلِ مطالعہ جلی سائز میں۔۔۔(ایک روایت کے مطابق اگر کسی مجلس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک بار بار لیا جائے تو ایک بار درود شریف پڑھنا اس پوری مجلس کے دورانیہ میں آپکے اسم مبارک پر درود شریف پڑھنے کی کفالت کرتا ہے)اس صورت میں نعت کے اندر آپ کا اسم مبارک اور ضمیر مبارک جتنی بار بھی آئے اس پر علامت اسمِ ضمیر رسول یعنی لکھ دیاجائے اس سے شعری آہنگ متاثر نہیں ہو گا ۔
قبلہ عزیز احسن یا کسی مفتی صاحب سے اس حوالے سے فتویٰ لے لیا جائے کہ نعتیہ شاعری میں جب بار بار آپ کا اسم مبارک آئے تو اس کی مناسب صورت کیا ہونی چاہیے اس پر دیئے جانے والے نشان یا علامتِ درود سے صرف نظر ہونے سے قاری گناہ گار نہ ہوگا۔۔۔اس صورت میں موجود روایت چاہے جاری رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : دہر پر نور ہے ، ظلمات نے منہ موڑ لیا
——
واضح رہے کہ مَیں بَرسبیل نعت کے سلسلۂ مضامین میں یہاں املا و تلفظ کے حوالے سے بعض ان مسائل کی طرف صرف توجہ دلا رہا ہوں جنہیں میں نے محسوس کیا ہے مَیں اس ضمن میں کوئی کتابِ عقائد یا فقہی اصول مرتب نہیں کر رہا نہ میں اس کا اہل ہوں اس پر بعض پیدائشی ناقد اور جبلّی نکتہ چین یہ کہہ سکتے ہیں کہ پھر میں اس بحث میں پڑا ہی کیوں ہوں؟گزارش ہے کہ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جنہیں آدمی محسوس کرتا ہے مگر اس کے پاس اس کا کوئی واضح حل نہیں ہوتا برسبیلِ نعت کے حوالے سے یہ محسوسات بھی خود کلامی کے ذیل میں سمجھیے کاغذ پر اس لیے آئے ہیں کہ شاید کسی کے پاس اس مسئلہ کا کوئی واضح اور قابلِ قبول حل ہو۔۔۔کمپیوٹر کے آغاز سے یہ مسئلہ اس لیے بھی نمایاں ہوا کہ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پرانی کتابیں ان دنوں جب دوبارہ کمپیوٹر کی کتابت میں شائع ہوئی ہیں تو اس میں آپ کے اسماوضمیر کے حوالے سے اسی نئے طرز کمپوزنگ کو روا رکھا گیا ہے مثلاً گزشتہ سالوں میں طارق اکیڈمی فیصل آباد سے قاضی منصورپوری کی ‘رحمت للعالمین‘شائع ہوئی ہے اس میں جگہ جگہ بعض مقامات پر سطر سطر میں کئی بار یہی طر زکتابت ملحوظ رکھی گئی ہے قاضی منصور پوری کی سیرت کے پرانے کتابت شدہ ایڈیشنوں میں آپ کے اسماوضمائر کے ساتھ درود کی عبادت کا شمول ایسے نہیں تھا کہیں کہیں اسم اشارہ /ضمیر کا التزام تھا اسی طرح مولیٰناحمد رضا خاں بریلوی اور مولیٰنا اشرف علی تھانوی کی پرانی کتابت شدہ کتابوں میں ایسے مقامات پر کے نشان ہی کو روا رکھا گیا تھا۔
’نعت رنگ‘سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ نعتیہ شاعری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم و ضمائر مبارک کے حوالے سے کسی قابل قبول طرزِ املا کا تعین کرے اس جریدے نے نعت کے ضمن میں کئی رجحان ساز میلانات کی طرف قارئین و شعرا کی توجہ مبذول کرائی ہے اگر وہ نعت رنگ کی آئندہ اشاعتوں اور نعت ریسرچ سنٹر میں چھپنے والی کتابوں میں کسی طے شدہ املائی اسلوب کا انتخاب کرے تو بعید نہیں کہ رفتہ رفتہ اس باب میں اہل قلم کسی قابل قبول اور لائقِ عمل طرز املا پر متفق ہو جائیں۔
——
منتخب کلام
——
حمد باری تعالیٰ
——
دُور کر دے مرے اعمال کی کالک ، مالک!
چمک اٹھے دلِ تاریک کی صحنک ، مالک!
سنوں اُس ہادیِ برحق کی صدا ، جس کا خیال
دیتا رہتا ہے درِ ذہن پہ دستک ، مالک!
’’طلب آقا نے ہے فرمایا غلام اپنے کو‘‘
ملے پیغام کسی روز ، اچانک مالک!
منفرد حمد نگاری کا ہو میرا سب سے
نادرہ کار ، رضا یافتہ مسلک ، مالک!
رہے آنکھوں میں مواجے کا بہشتی ماحول
وِرد میرا ہو ’رفعنا لک ذکرک‘ مالک!
اذن سے تیرے ملے اُن کی شفاعت جس وقت
چاروں جانب سے صدا آئے ’مبارک‘ مالک!
حالِ برزخ میں رہے روح مری آسودہ
تیری رحمت سے رہے قبر میں ٹھنڈک ، مالک!
ملے بخشش کی نوید اور ریاضؔ ایسے کی
لوحِ تقدیر بدل جائے یکایک ، مالک
——
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
——
خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں
آپ کو نعت سنانے کی سعادت پاؤں
راہِ طیبہ میں ہوں ہمراہ ثنا خواں تیرے
حافظ و تائب و افضل کی رفاقت پاؤں
تیری رحمت ہو محافظ مری منزل منزل
چار سو اپنے ، ترا ہا لۂ رحمت پاؤں
استقامت ہو عطا گرتے ہوئے جذبوں کو
شرکے ان زلزلوں میں خیر کی مہلت پاؤں!
سب سے آخر میں سہی ،گر نہیں سب سے پہلے
شافعِ حشر! تری میں بھی شفاعت پاؤں
راست فہمی ملے ان بے بصر اندازوں میں
اس گماں زار میں ایقانِ حقیقت پاؤں
کام آئے مراخوں حرمتِ دیں کی رہ میں
سرِ میدانِ وفا اوجِ شہادت پاؤں
یاد سے تیری ہم آہنگ ہو دھڑکن دھڑکن
ذکر سے تیرے کسی پل نہ فراغت پاؤں
ثانیہ ثانیہ ہو شکر سراپا کی مثال
عمر میں خیر تو اعمال میں برکت پاؤں
دہر میں وجہِ حیات آپ کی الطاف رہیں
حشر میں بہرِ نجات آپ کی رحمت پاؤں
شرف اندوز ہوذات آپ کے جذبِ حب سے
میں غلام آپ کاہوں آپ سے عزت پاؤں
ایک پل بھی نہ ریاضؔ آج سے گزرے بے کار
خیر کے واسطے اب عمر کی مہلت پاؤں
——
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
——
سیرِ چمن میں ، بیٹھ لب جُو، دُرُود پڑھ
کر یاد، پھول دیکھ کے وہ رُو، دُرُود پڑھ
ہر سانس وروِ صَلِّ علَیٰ سے مہکتی آئے
جنّت بنا رہے ترا ہر سُو، دُرُود پڑھ
خالی نہ جائے کوئی بھی پَل اُن کے ذکر سے
جتنا بھی وقت تجھ کو ملے تُو، دُرُود پڑھ
زنجیریٔ حیات! ہم آغوشِ وقت ہو
پھیلا صدائے نوُر کے بازو! دُرُود پڑھ
دہلیزِ نوُر آنکھ میں رکھ اُس حریم کی
سر کو جھکا کے اے دلِ خوش خُو! دُرُود پڑھ
کُنجِ لَحَد سے باغِ جناں تک رہے گی ساتھ
ہے خاص اِس دُرُود کی خوشبو! دُرُود پڑھ
اُن کی جناب میں سرِ تسلیم، خم رہے
دن ہو کہ رات، قلبِ رضا جُو! دُرُود پڑھ
دُوری میں رہ کے کیف ِ حضوری نصیب ہو
وہ ، جس میں ہو اویس ؓ کی خوشبو، دُرُود پڑھ
یہ سوچ، تجھ کو کون سی نعمت ملی ، ریاض
آنکھوں میں لا کے شکر کے آنسو، دُرُود پڑھ
——
یہ بھی پڑھیں : دشت ہے کل جہاں سائباں آپ ہیں
——
ہو گیا ہے ایک اک پل کاٹنا بھاری مجھے
مار دے گی زندگانی کی گراں باری مجھے
در بدر پھر پھر کے خود اپنے سے نفرت ہو گئی
کھوکھلا سا کر گیا ہے رنج بیکاری مجھے
اتنا کچھ دیکھا کہ سب کچھ ایک سا لگنے لگا
کر گیا ہے وقت محسوسات سے عاری مجھے
میں سیہ ملبوس گزرے وقت کا ہوں ماتمی
زیست نے سونپی ہے ماضی کی عزا داری مجھے
ایک اک کر کے کٹے باہر کے سارے رابطے
کر گئی تنہا مری سوچوں کی بیماری مجھے
جی میں آتا ہے بکھر کر دہر بھر میں پھیل جاؤں
قبر لگتی ہے بدن کی چار دیواری مجھے
تو نظر آیا تو جنگل ذات کا جل جائے گا
راکھ کر دے گی تری خواہش کی چنگاری مجھے
روز و شب رہتا ہوں گم صم اور متفکر ریاضؔ
کرنی ہے کس امتحاں کی جانے تیاری مجھے
——
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ھوئے
رو پڑا وہ آپ ، مجھ کو حوصلہ دیتے ھوئے
اس سے کب دیکھی گئ تھی میرے رخ کی مردنی
پھیر لیتا تھا وہ منہ ، مجھ کو دوا دیتے ھوئے
خواب بے تعبیر سی سوچیں مرے کس کام کی؟
سوچتا اتنا تو ، وہ دست عطا دیتے ھوئے
بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سل جاتے ہیں دنیا کو گلہ دیتے ھوئے
اپنی رہ مسدود کر دے گا یہی بڑھتا ہجوم
یہ نہ سوچا ہر کسی کو راستہ دیتے ھوئے
وہ ہمیں جب تک نظر آتا رہا ، تکتے رہے
گیلی آنکھوں ، اکھڑے لفظوں سے دعا دیتے ھوئے
بے اماں تھا آپ لیکن یہ معجزہ ہے ریاض
ہالہء شفقت تھا اس کو آسرا دیتے ھوئے