بلائے جاں تھی جو بزمِ تماشا چھوڑ دی میں نے

خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے

جو رہتیں بھی تو میرے شوق کی گلکاریاں کب تک

چلو اچھا ہوا تزئینِ صحرا چھوڑ دی میں نے

نہ ہو جب حال ہی اپنا تو مستقبل کی پروا کیا

غمِ امروز چھوڑا ، فکرِ فردا چھوڑ دی میں نے

مرض وہ ہے کہ صدیاں بھی مداوا کر نہیں سکتیں

توقع تجھ سے اے عمرِ دو روزا چھوڑ دی میں نے

اگر مقدور ہو تو پوچھ سیلِ کم سوادی سے

حکایت تیری کیوں اے مردِ دانا چھوڑ دی میں نے

مری تقلید میں گُم ہو نہ جائے راہرو کوئی

کہ ہر منزل پسِ نقشِ کفِ پا چھوڑ دی میں نے

سحرؔ اب ہو گا میرا ذکر بھی روشن دماغوں میں

محبت نام کی اک رسمِ بے جا چھوڑ دی میں نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]