بچھڑ کے طیبہ سے دل کی شگفتگی نہ رہی

وہاں سے آئے تو اُمِّیدِ زندگی نہ رہی

وہاں خیال بھی ضو ریز تھا ستارہ صفت

یہاں بہار کے موسم میں دلکشی نہ رہی

کرم کے پھول سمیٹے وہاں تو ہر لمحہ

بنے جو پھول یہاں ایسی اک کلی نہ رہی

وہ عہد جس میں درخشاں تھیں دین کی قدریں

ہوا نگاہ سے اوجھل تو چاندنی نہ رہی

سحر کی چاہ تو دل کو بہت ہے پر آقا

زوالِ شب کی کسی کو اُمید ہی نہ رہی

شناخت بھول کے غیروں کی سمت دیکھتے ہیں

ہیں سنگ و خشت سے بد تر کہ اب خود ی نہ رہی

نہیں کسی کو بھی احساس اپنے لٹنے کا

حقیر شے تھی خودی وہ رہی رہی نہ رہی

عجب! کہ عشقِ بلالیؓ کے خوب چرچے ہیں

مگر نہالِ مقاصد میں تازگی نہ رہی

جہاد صرف خیالات کی امانت ہے

ادا ہو کیسے امانت، یہ آگہی نہ رہی

یہ قوم عزم کی شمعیں بجھا کے بیٹھ گئی

مگر گِلہ ہے! چراغوں میں روشنی نہ رہی

حضور ! اب تو دعاؤں کو نور مل جائے!

وہ دن بھی آئے کہیں ہم کہ تیرگی نہ رہی!

عزیزؔ درد کا دریا عبور ہو کیسے؟

کہ اِس بھنور سے نکلنے کی آس بھی نہ رہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]