بچھی ہے مسندِ عز و وقار ان کے لیے
سروں کو خم ہیں کیے تاجدار ان کے لیے
سجی ہے ان کے لیے محفل نجوم و قمر
ہے آسمان کو حاصل قرار ان کے لیے
درود پڑھتی ہیں سر سبز وادیاں ان پر
رواں دواں ہیں سبھی آبشار ان کے لیے
اثاثہ نکہت طیبہ کا بھر کے دامن میں
ہوئیں ہوائیں غریب الدیار ان کے لیے
خدا نے ان کے لیے کائنات کی تخلیق
ہر ایک نقش بنا شاہکار ان کے لیے
یہ میں ہوں اور یہ ہے دامن تہی میرا
نواز دے مرے پروردگار ان کے لیے
مجیبؔ راہ تصور میں ایک مدت سے
پڑا ہے قافلۂ انتظار ان کے لیے