بچھی ہے مسندِ عز و وقار ان کے لیے

سروں کو خم ہیں کیے تاجدار ان کے لیے

سجی ہے ان کے لیے محفل نجوم و قمر

ہے آسمان کو حاصل قرار ان کے لیے

درود پڑھتی ہیں سر سبز وادیاں ان پر

رواں دواں ہیں سبھی آبشار ان کے لیے

اثاثہ نکہت طیبہ کا بھر کے دامن میں

ہوئیں ہوائیں غریب الدیار ان کے لیے

خدا نے ان کے لیے کائنات کی تخلیق

ہر ایک نقش بنا شاہکار ان کے لیے

یہ میں ہوں اور یہ ہے دامن تہی میرا

نواز دے مرے پروردگار ان کے لیے

مجیبؔ راہ تصور میں ایک مدت سے

پڑا ہے قافلۂ انتظار ان کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]