بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے کے واسطے

آپ آ گئے چراغ جلانے کے واسطے

کیا کیا صُعوبتیں نہ اُٹھائیں حضور نے

اللہ کا پیام سُنانے کے واسطے

اک اہتمامِ خلوتِ نُور آفریں ہُوا

بندوں کو اپنے رب سے ملانے کے واسطے

دل اُن کے ذکر کے لیے اور اُن کی یاد میں

آنکھیں ملی ہیں اشک بہانے کے واسطے

جھونکا سا جیسے آ کے رُکا ہو مرے قریب

چُپکے سے کوئی بات بتانے کے واسطے

بابِ کرم دروُدوں سے کھلتا ہے صاحبو

چابی تو چاہیے ہے خزانے کے واسطے

آخر درِ نبی پہ جگہ مل گئی مجھے

کب سے بھٹک رہا تھا ٹھکانے کے واسطے

پھر میرے ساتھ ارض و سما بول اُٹھے سلیمؔ

میں چُپ ہُوا تھا نعت سُنانے کے واسطے

دُنیا ہے ایک آگ کا صحرا جہاں سلیمؔ

عشق نبی ہے پھول کھلانے کے واسطے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]