بھٹک رہا تھا زمانہ درِ خدا نہ ملا

شہِ مدینہ کا جب تک نہ آستانہ ملا

خرد کو علم سے نکتہ یہ عارفانہ ملا

اُسے خدا نہ ملا جس کو مصطفیٰ نہ ملا

ہماری زمزمہ سنجی کو اک ترانہ ملا

ہماری روح کی تسکیں کو پنجگانہ ملا

فلاحِ زیست کو اک دین عادلانہ ملا

رسولِ پاک کے صدقہ میں ہم کو کیا نہ ملا

مرے نبی کے برابر نبی نہیں کوئی

مجھے وہ ختم رسل یکتا و یگانہ ملا

انھیں کے ہاتھوں ملا ہے صحیفۂ قرآں

نہ ختم ہو جو کبھی ہم کو وہ خزانہ ملا

ملا ہے خاک میں شاہوں کا سب غرورِ شہی

ترے گداؤں کو وہ تاجِ خسروانہ ملا

وہ ارجمند ہے وہ خوش نصیب ہے لاریب

نبی کے شہر کا جس جس کو آب و دانہ ملا

بروزِ حشر ہم عاصی بھلا کہاں جاتے

انھیں کے دامنِ رحمت میں بس ٹھکانہ ملا

نگاہِ لطفِ خدا، کیفِ جاں، سُرورِ دل

نظرؔ کو اُن کی ثنا کا یہ محنتانہ ملا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]