بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے

اسی جگہ پہ یہ دیکھیں لہو لہو کیا ہے

خدا کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے

سمجھ لے اپنی حقیقت کو پہلے تُو کیا ہے

گہر بنا ہے چمکتا ہوا یہ خونِ صدف

نہیں تو قطرۂ نیساں کی آبرو کیا ہے

ہزار عالمِ رنگیں ہیں دل کی دنیا میں

مری نگاہ میں دنیائے رنگ و بو کیا ہے

جو دسترس میں ہو پی جاؤں میں تو خُم کا خُم

کہ مجھ کو بادۂ یک ساغر و سبو کیا ہے

تمام نظم ہو زیر و زبر، ہو امن تباہ

ہر اک یہی جو کہے دوسرے کو تُو کیا ہے

پتہ چلے کہ مقابل وہ کس کے آیا ہے

نظرؔ کے سامنے آئے سہی عدو کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]