بہ ہر پہلو مجھے آٹھوں پہر معلوم ہوتی ہے

محبت کی خلش اب معتبر معلوم ہوتی ہے

تقاضے لا الہ کے ہم نفس اُتنے ہی زیادہ ہیں

بظاہر بات جتنی مختصر معلوم ہوتی ہے

بہ ہر لغزش جھجکتا ہوں، سنبھلتا ہوں، ٹھہرتا ہوں

نگہباں رحمتِ خیر البشر معلوم ہوتی ہے

خدا بیزاریِ دنیا فزوں تر آئے دن ہے کیوں

یہ تہذیبِ فرنگی فتنہ گر معلوم ہوتی ہے

مہ و خورشید و ابر و برق و باراں، موجۂ صر صر

کوئی ہستی نظرؔ فوق البشر معلوم ہوتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]