بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے

کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو

پرلے درجے کا فول ہے پیارے

واہ یہ تیرا زرق برق لباس

گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے

تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں

تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے

مجھ کو بلوائیو ڈنر کے بعد

عرض میں میری طول ہے پیارے

کیا ملا تو جو دل سے دل نہ ملا

ٹھیک بیٹھے تو چول ہے پیارے

لق لقا ہوش ، موڑ سے بچ جا

سامنے اک سکول ہے پیارے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]