بے باک نہ دیکھا کوئی قاتل کے برابر

شرم آنکھ میں پائی نہ گئی تل کے برابر

دشمن کوئی اے یار مرا اور ترا دوست

ہوگا نہ زمانے میں مرے دل کے برابر

دل متصل کوچۂ محبوب ہوا گم

لٹنا تھا پہنچ کر مجھے منزل کے برابر

کم بختیٔ واعظ ہے کہ ہو وعظ کی صحبت

رندان قدح نوش کی محفل کے برابر

ہم پی گئے جو اشک قریب مژہ آیا

کشتی ہوئی جب غرق تو ساحل کے برابر

آہوں کے شرر گرد نہیں داغ جگر کے

تابندہ ہیں اختر مہ کامل کے برابر

پردہ نہ اٹھا قیس نے لیلیٰ کو نہ دیکھا

جھونکا بھی نہ آیا کوئی محمل کے برابر

مقتل میں یہ حسرت رہی اے ضعف پس ذبح

پہنچے نہ تڑپ کر کسی بسمل کے برابر

گھر تک در جاناں سے جلالؔ آئیے کیوں کر

ایک ایک قدم ہے کئی منزل کے برابر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]