ترِے شہرِ مقدّس پر تری رحمت کے سائے ہیں

اسی امید پر آقا! تری چوکھٹ پہ آئے ہیں

مری بخشش کی کچھ صورت نکل آئے گی اس در پر

گناہوں سے بھری گٹھڑی تبھی تو باندھ لائے ہیں

یہ بخشش ہے نصیب اس کا ترِے در پر جو آ پہنچا

کہ جس کے واسطے توُ نے یدِ رحمت اٹھائے ہیں

مرے دکھ کا مداوا تو ترے بن ہو نہیں سکتا

کہ میری روح نے فرقت میں صدہا زخم کھائے ہیں

لحد میں جب پریشاں تھا مرِے آقا تو پھر اس دم

ترِے در کی غلامی کے وہ لمحے کام آئے ہیں

لحد میں جن غلاموں نے مرے آقا کو پہچانا

تو چہرے ان غلاموں کے خوشی سے تمتمائے ہیں

اس اُمّت پر کرم کیجے ،بڑی مشکل میں ہے اس دم

غم و اندوہ کے بادل ہمارے سر پہ چھائے ہیں

محافل تیری یادوں کی جہاں سجتی رہیں آقا!

تو گھر ان خوش نصیبوں کے ہمیشہ جگمگائے ہیں

جلیلِ بے نوا پر بھی حضور اپنا کرم کر دیں

کہ اس مشکل میں اس کے تو سبھی اپنے، پرائے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]