ترے ذکرسے چِھڑ گئی بات کیا کیا

فسانے سُنے ہم نے کل رات کیا کیا

تُو رونے لگے گا اگر میں بتا دوں

کہ ہنس ہنس کے جھیلے ہیں صدمات کیا کیا

وضو، قرأتِ آیت عشق ، گریہ

تری دید کی ہیں رسومات کیا کیا

کبھی چال بدلی ، کبھی راہ بدلی

کیے ہیں ترے پاؤں نے ہاتھ کیا کیا

میں جسموں کے جنگل سے گُزرا تھا اک دن

کِھلے تھے درختوں پہ گُل پات کیا کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]