یادوں کا ابر چھایا ہے خالی مکان پر
کیا رنگ روپ آیا ہے خالی مکان پر
دیوار و در پہ نقش ہے اک بھولی بسری یاد
گزرے دنوں کا سایہ ہے خالی مکان پر
ہمسائے لا رہے ہیں اداسی کی کچھ دوا
فی الحال دم کرایا ہے خالی مکان پر
آسیب کوئی ہے جو اسے چھوڑتا نہیں
ہر نسخہ آزمایا ہے خالی مکان پر
اس میں ہے دفن اپنے مکینوں کا انتظار
کتبہ یہی لگایا ہے خالی مکان پر