تعذیب کی ساعت جب آئے کہتے ہیں کہ ٹلنا مشکل ہے

بہتر ہے بدل لو اپنے کو فطرت کا بدلنا مشکل ہے

صد حیف بلا کی پستی ہے اب اس سے نکلنا مشکل ہے

اب تک تو سنبھلتے آئے تھے اس بار سنبھلنا مشکل ہے

میدانِ عمل میں اتریں گر حالات بھی کروٹ لیں شاید

اے شیخِ مکرم باتوں سے حالات بدلنا مشکل ہے

خود آگ میں اپنی جلتے ہیں پروانے فدائے شمع ہیں کب

اے دوست پرائی آگ میں تو سب کہتے ہیں جلنا مشکل ہے

پہچان کھرے اور کھوٹے کی اس راہ میں ہوتی ہے ہمدم

یہ راہِ محبت ہے اس میں ہر ایک کا چلنا مشکل ہے

یہ ظلمتِ شب یہ سہما دل پُر ہول یہ منظر اُف توبہ

تم صبح کی خبریں دیتے ہو یاں رات نکلنا مشکل ہے

دلکش ہے ہمیں ہر نظارہ ہر رنگ میں ہم کھو جاتے ہیں

یہ حال نظرؔ ہے جب اپنا کیا پاؤں پھسلنا مشکل ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]